دس سالہ کلثوم اپنے ماموں کے ہمراہ عید کی خریداری کے لیے کوئٹہ آئی تھی لیکن خریداری سے پہلے ہی وہ بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئی۔ کلثوم اور ان کے ماموں ان چار افراد میں شامل ہیں جو کوئٹہ شہرمیں پیرکو ہونے والے دو بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے۔ 

ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ دونوں دھماکوں میں مجموعی طور پر 19 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ کوئٹہ شہر کے معروف تجارتی مرکز میں ان میں سے ایک دھماکہ اس وقت ہوا جبکہ پولیس کے ایک آفیسر کی گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ 

پہلا دھماکہ کہاں ہوا؟ 

کوئٹہ شہر میں پہلا دھماکہ باچا خان چوک کے قریب شہر کے معروف تجارتی مرکز قندھاری بازار میں ہوا، جس کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن نے قبول کی ہے۔ سول ہسپتال کوئٹہ میں ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب ایس پی انویسٹی گیشن صدر نصیر الحسن شاہ کی گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ جائے وقوعہ پر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ ذوہیب محسن نے بتایا کہ دھماکے کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد ’موٹرسائیکل میں نصب تھا کیونکہ یہاں موٹر سائیکل کا ایک ڈھانچہ پڑا ہوا ہے‘۔

 ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ دھماکے کا ہدف کون تھا لیکن دھماکہ پولیس کی گاڑی کے قریب ہوا جس سے یہ لگتا ہے کہ پولیس کی گاڑی ہی ٹارگٹ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کی نوعیت سے یہ لگ رہا ہے کہ اس کے لیے تین سے چار کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے۔

سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان وسیم بیگ نے بتایا کہ قندھاری بازار میں ہونے والے دھماکے میں مجموعی طور پر پندرہ افراد زخمی ہوئے جن کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں بچی کی شناخت دس سالہ کلثوم کے نام سے ہوئی ہے۔ سول ہسپتال میں ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا کہ کلثوم اپنے ماموں کے ہمراہ نکلی تھی تاکہ وہ عید کے لیے خریداری کرسکے۔ کلثوم کچلاک سے عید کی خریداری کے لیے کوئٹہ آئی تھی۔ بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد اور زخمیوں کو جائے وقوعہ سے قریب ہونے کے باعث سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔ ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کے قریب لوگ اپنے پیاروں کی ناگہانی موت پرغم سے نڈھال تھے اور وہ وہاں زاروقطار روتے ہوئے دکھائی دیے۔

 انہی میں کوئٹہ شہر سے شمال میں 25 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع کچلاک سے تعلق رکھنے والے جان محمد بھی شامل تھے۔ جان محمد نے بتایا کہ ان کے چچازاد بھائی حکمت اللہ اور ان کی بھانجی کلثوم اس دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کلثوم اپنے ماموں کے ساتھ عید کی خریداری کے لیے کچلاک سے شہر آئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ کلثوم کے والد گندم لینے کے لیے سندھ گئے ہوئے ہیں اور کلثوم اپنے ماموں کے ساتھ خریداری کے لیے آئی تھی۔


بشکریہ: بی بی سی اردو (رپورٹ: محمد کاظم)